شاعر: جناب نجیب زیدی
اندھیری رات ہو
ظلم و ستم کی آندھی ہو
ستم کے دیو ہوں مظلومیت کی آہیں ہوں
زمین خون سے تر ہو
تڑپتی مائیں ہوں
ہوں آسماں کی فضا میں گرجتے طیارے
ہوا میں بل کھاتے
بموں کو برساتے
اجل کو بانٹتی میزائلوں کی بارش ہو
ڈرونز کے حملے
بکھرتے ہر طرف انسانوں کے پرخچے ہوں
زمین جلتی ہو ہر سو دھوئیں کے ہالے ہوں
فضا میں چیختی ماوں کے آہ و نالے ہوں
لہو کی چیخ ہر اک چیخ سے الگ ہوگی
لہو کا طرز ہر اک طرز سے الگ ہوگا
وفا کا عہد لئیے
ثبات فکر لئیے
کمال صبر لئیے
لہو پکارے گا
لہو یہ وہ ہے کہ جو قید میں نہیں آتا
لہو یہ وہ ہے جو دار و رسن سے ڈرتا نہیں
یہ خوف خنجر و تلوار سے نہیں کھاتا
لہو یہ وہ ہے جو تیرو سناں پہ لپکے ہے
لہو یہ وہ ہے کہ جو علقمہ کے ساحل پر
کٹا کے ہاتھ رہِ حق پہ فخر کرتا ہے
لہو یہ وہ ہے کھا کے گلے پہ تیر ستم
تبسمِ علی اصغرؑ میں حق سناتا ہے
لہو یہ وہ ہے جو نوک سناں پہ چڑھ کر بھی
حقیقتوں کی اذاں دہر کو سناتا ہے
یہی لہو ہے تھا جوبیروت میں بہا پھر سے
لئیے تھاقدس کے خوابوں کو اپنے دامن میں
یزید وقت کے ہاتھوں میں ہتھکڑی بن کر ۔
جہان ِظلم کی نیندیں اڑا کہ بہہ نکلا
نظام جور کو آنسو رلا کہ بہہ نکلا
پیام صبح نھفتہ ہے اسکی حرکت میں
چراغ فکر جلائے ہے اپنے باطن میں
ہر ایک دل میں نیا حوصلہ جگائے ہوئے
یہ ورثہ دار ہےخندق کا اور خیبر کا
علی ع کے عزم کا وارث تو صبر شبر
حسینی خون کا وارث وفائے غازی کا
یہ وہ لہو ہےکہ خشبو ہے جس میں اکبر ع کی
یہ کل تو جسم میں سید کے تھا رواں لیکن
بدن سے چھوٹ کے ہر سو ہے اسکی جولانی
زمیں کے ہر ہی کنارے پہ ہے اذاں اس کی ۔
ہر اک بشر ہی پکارے ہے اب تو "نصر اللہ"
ہر اک کے سینہ پہ کندہ ہے اب تو " حزب اللہ"
یہ خون رکے گا نہیں
قافلہ تھمے گا نہیں
اسی لہو سے ہر اک شام خود سحر ہوگی
اسی لہو سے زمانے کو یہ خبر ہوگی
لہو سے جنگ جو ہوگی تو منھ کی کھاو گے۔
جو اسکے سامنے آئے تو ہار جاوگے۔
لہو جگاتا ہے سوئے ہوئے ضمیروں کو
لہو اٹھاتا ہے بے حس ہوئی جبینوں کو ۔
گرے ہووں کو یہ اپنے دم اٹھاتا ہے
ہے اسکا کام جگانا سو یہ جگاتا ہے
لہو جگاتا ہے
از قلم: جناب نجیب زیدی









آپ کا تبصرہ